ملک میں کرپٹ انتخابی نظام ختم کیے بغیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، عوام کو موجودہ نظام کا بائیکاٹ کرنا ہو گا، قاضی فیض الاسلام

اسلام ٹائمز : تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ راولپنڈی لیاقت باغ میں منعقد ہونے والی ریلی تاریخ کی سب سے یاد رکھے جانے والی ریلی اور اجتماع ہو گا جسے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ یہ ریلی مثبت، پائیدار، ٹھوس اور حقیقی تبدیلی کی بنیاد ثابت ہو گی۔

قاضی فیض الاسلام کا تعلق راولپنڈی سے ہے، آپ نے گورنمنٹ گارڈن کالج سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کی، اس وقت تحریک منہاج القرآن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ گزشتہ 18 سال سے تحریک منہاج القرآن سے وابستہ ہیں اور کئی اہم ذمہ داریوں پر بھی کام کر چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے تحریک منہاج القرآن پاکستان کی جانب سے راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں منعقد ہونے والی اٹھارہ دسمبر کی ریلی اور موجودہ انتخابی نظام کے بائیکاٹ سمیت ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر اہم سوالات پر مشتمل انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز : قاضی فیض الاسلام صاحب، اٹھارہ دسمبر کو منعقد کی جانے والے ریلی کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟

قاضی فیض الاسلام : 18 دسمبر بروز اتوار کو لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد ہونے والی عوامی ریلی ہمارے سال 2012ء کے لیے بنائے ہوئے پلان کا ایک تسلسل ہے جس کا مقصد عوامی شعور کی بیداری ہے۔ مختلف تنظیمیں جن میں پاکستان عوامی تحریک، سٹوڈنٹ موومنٹ، منہاج القرآن تحریک، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور منہاج فاؤنڈیشن سوسائٹی کے ذریعے دعوت کا کام چل رہا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ عوام کو باور کرایا جائے کہ الیکشن کی روایتی رسم سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے، یہاں چہرے بدلتے ہیں لیکن نظام وہی ہے۔ اس حوالے سے ہم نے نچلی سطح پر تنظیمی سیٹ اپ کو مضبوط کیا ہے اور اپنے پیغام کو معاشرے کے اندر تمام طبقات تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے گزشتہ الیکشن اس لیے نہیں لڑا چونکہ اس وقت عوام اس نظام کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے، اس لیے ہم نے گراؤنڈ پر اپنا کام جاری رکھا۔ ہم جمہوریت کے قائل ہیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ انتخابی حلقے جس میں پانچ کروڑ سے بیس کروڑ تک ایک امیدوار انوسٹمنٹ کرتا ہے تب جا کر وہاں انتخاب ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ امیدوار وہاں سے بیس کروڑ کا ایک ارب روپے قومی خزانہ سے لوٹ لیتا ہے مگر وہ اس حلقے پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا، عوام اپنے نمائندہ کے چہرے فقط الیکشن کے دنوں میں ہی دیکھتے ہیں۔

اس وقت جو موجودہ استحصالی کرپٹ نظام ہے وہ فقط چند سیاسی خاندانوں کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے، یہ نظام عوام میں سے صرف 2 فیصد کے مفاد کا محافظ ہے جبکہ 98 فیصد عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے پاس تعلیم کے لئے وسائل نہیں، کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی میسر نہیں، صورتحال یہ ہے کہ ایک فرد اپنے بچے کو کسی اچھے سکول میں تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ مکان کا کرایہ، بجلی کا بل، مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود عوام انہیں بدعنوان افراد کو اپنا لیڈر و رہنما منتخب کرتے ہے۔ عوامی شعود ختم ہو گیا ہے اور اب کیوں کہ بیداری اور انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اس تبدیلی کے نام پر قوم کو پھر غلط سمت پر نہ لگایا جائے، قوم کو پھر دھوکہ نہ دیا جائے۔ اب کچھ نئے لوگ اس سسٹم میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم تبدیلی لائیں گے، وہ اسی موجود استحصالی کرپٹ نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کا حصہ بن رہے ہیں، وہ خود بھی مایوس ہوں گے اور قوم کو بھی مایوس کریں گے۔ راولپنڈی لیاقت باغ میں منعقد ہونے والی ریلی تاریخ کی سب سے یاد رکھے جانے والی ریلی اور اجتماع ہو گا جسے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ یہ ریلی مثبت، پائیدار، ٹھوس اور حقیقی تبدیلی کی بنیاد ثابت ہو گی۔

اسلام ٹائمز : جس جمہوریت کی آپ بات کر رہے ہیں اس کی عمر فقط تین سو سال سے زیادہ نہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں خود کئی ملین ارب ڈالرز صرف ہوتے ہیں، وہاں پر بھی لوگ پس رہے ہیں، وال اسٹریٹ مہم کیا ہے؟ تو آپ کس جموریت کی بات کر رہے ہیں۔؟

قاضی فیض الاسلام : وہاں پر الیکشن کمیشن آزاد ہے، الیکشن والے دن چھٹی تک نہیں ہوتی۔ لوگ اپنے دفاتر جاتے ہیں اور معمول کے مطابق روز مرہ کے کام انجام دیتے ہیں اور ووٹ دینے کے وقت جا کر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جبکہ یہاں تو صرف ایک پارٹی کا ایک دن کا خرچ کروڑوں روپے ہے۔ یہ سارا تماشا وہاں نہیں ہوتا ہے۔ وہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے، وہاں خاوند کو یہ پتا نہیں ہوتا ہے کہ اس کی اہلیہ نے کس کو ووٹ دے گی اور بیوی کو خاوند کے بارے میں پتا نہیں ہوتا، جبکہ دونوں کو اپنی اولاد کا پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے کس کو ووٹ دینا ہے۔ وہاں پر آزادی ہے جبکہ یہاں پر برادری، وڈیرہ ازم اور جاگیردانہ نظام ہے، جہاں ایک بڑے کو خرید لیا جاتا ہے باقی ووٹ خودبخود اس کی جیب میں آ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تریسٹھ برسوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب ایک فرد الیکشن کمپین پر کئی کروڑ روپے جھونک دے گا تو کیا اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے حلقے میں عوام کیلئے کام کرے گا، بھائی وہ تو سرمایا کاری کر رہا ہے، اس نے تو انتخاب جیتنے کے بعد ایک کروڑ کے ایک ارب روپے نکالنے ہیں۔ اس کی قیمت بلآخر قوم کو ہی ادا کرنا ہوتی ہے، ان لوگوں نے اسے اپنا بزنس بنایا ہوا ہے۔ یہ لوگ قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اس سارے فساد کی جڑ یہ موجودہ استحصالی کرپٹ نظام ہے۔ ہم قوم سے یہ نہیں چاہتے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ کریں اور امن وامان کی صورتحال کو غارت کریں، بلکہ ہم جمہوری انداز میں لوگوں کو کہتے ہیں کہ سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایں اور اس نظام کیخلاف آواز بلند کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے تحت ووٹ ڈالنا حرام ہے۔

اسلام ٹائمز : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس پیغام پر قوم لبیک کہے گی اور موجودہ نظام سے چھٹکارہ مل جائے گا۔؟

قاضی فیض الاسلام : قوم کو جگانا ہمارا فرض ہے، ہم نے اپنا ایک نظریہ لوگوں تک پہنچا دیا ہے اور وہ تمام اخبارات اور میڈیا میں نشر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ جلسے کے اندر ڈاکٹر صاحب اس کی مزید وضاحت کریں گے۔ یہی ہمارا نظریہ دانشوروں، صحافیوں، ملک کے تمام طبقات اور عوام تک کے سامنے آ گیا ہے۔ اس پر کسی قسم کا سودا نہیں ہو گا۔ اس نظریے کے اوپر کھل کر بات چیت ہو گی، ہم کھولی دعوت دیتے ہیں کہ آپ اس پر تنقید کریں اور تجزیہ کریں تاکہ قوم اچھے برے کی تمیز کر سکے اور کسی فیصلے تک پہنچا جا سکے۔

اسلام ٹائمز : سال 2002ء میں ڈاکٹر صاحب مستعفٰی ہوئے اس کے بعد انہوں نے علمی فکر کام شروع کر دیا، گزشتہ چند ماہ سے دوبارہ ایک دم کام کا آغاز کر دیا گیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

قاضی فیض الاسلام : ہم نے پاکستان کی سیاست نہیں چھوڑی۔ اس ملک کے عوام کو شعور دینا اور انہیں ایجوکیٹ کرنا بھی سیاسی عمل ہے، اس ملک کے عوام کے ویلفیئر کیلئے کام کرنا بھی سیاست سے باہر نہیں۔ اس ملک کے لوگوں کے ایمان پر حملے ہو رہے ہیں، ان کے عقائد پر حملے ہو رہے ہیں، ان کی درستگی کرنا بہت اہم اور مہم کام ہے، ہمارا یہ کام گراؤنڈ پر جاری تھا اور ہے۔ 1990ء اور 2002ء میں ہم نے الیکشن لڑا۔ سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر آپ اس نظام کے خلاف تھے تو آپ نے دو الیکشن کیوں لڑے۔؟ 1989ء میں جب ڈاکٹر صاحب نے عوامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی تو انہوں نے یہ چیز ریکارڈ پر لائے تھے کہ میں پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھ رہا ہوں، الیکشن میں کوشش کروں گا، اگر اللہ نے ہمیں اس میں کامیابی دی تو اپنی کوشش کو جاری رکھوں گا ورنہ اس راستے کو چھوڑ دیں گے۔ اگر وہ دو الیکشن ہم نے نہ لڑے ہوتے تو آج لوگوں نے یہی کہنا تھا کہ آپ تو اس نظام میں آئے ہی نہیں، آئے بغیر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نظام خراب ہے۔ خدشہ ہمیں پہلے بھی تھا اس کے باوجود ہم نے دو تجربے کیے اور اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس موجودہ نظام میں سو مرتبہ بھی الیکشن ہو جائیں تو رتی برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اسلام ٹائمز : ڈاکٹر صاحب دہشتگردی کے کھلے مخالف ہیں، اور اس حوالے سے ایک کتاب بھی تحریر فرمائی، ڈاکٹر صاحب نے انتخابی سیاست کو خیرباد کہہ دیا ہے، جس حلقے سے ڈاکٹر صاحب کھڑے ہوتے تھے اب وہاں اکیلا شیخ وقاص رہ گیا ہے جبکہ اب سپاہ صحابہ شیخ وقاص کا اکیلا مقابلہ کرے گی، قوی امکان ہے کہ اس بار وہ انتخابات میں جیت جائیں اور شیخ وقاص ہار جائے، کیا آپ نے نہیں سمجھتے کہ ڈاکٹر صاحب کے بائیکاٹ سے ان دہشتگردوں کیلئے گراونڈ خالی ہوگیا ہے۔؟

قاضی فیض الاسلام : تحریک منہاج القرآن تنظیمی نیٹ ورک کے حوالے سے عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ ہم پوری اُمہ کا کیس لڑ رہے ہیں اور اس اُمہ میں ایک پاکستان بھی ہے۔ آپ اسے ایک حلقے تک محدود نہ کریں۔ جب نظام ٹھیک ہو گا تو وہ حلقہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف ہم شروع دن سے سراپا احتجاج ہیں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا تھا کہ یہ دہشت گرد صرف تین ماہ میں ختم ہو سکتے ہیں، ان کے روٹس کو ختم کر دیا جائے اور سانپوں کو نہ پالا جائے، سانپوں کو پالنے کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ چوہے بلی کا کھیل اگر ختم ہو جائے تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے لیکن اب یہ معاملہ بہت آگے چلا گیا اور اب اس کو ٹھیک کرنے کیلئے ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

میرا حکومت پاکستان سے ایک سوال ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دہشتگردی کیخلاف ایک فتویٰ دیا تھا، اس کے ایک لفظ کو کوئی رد نہیں کر سکا، ویسے شور مچانے والے بہت ہیں لیکن اس کو عِلمی لحاظ سے یا کسی دلیل سے کوئی اس کو رد نہیں کر سکا۔ اگر حکومت پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے میں واقعاً مخلص ہے تو اس فتویٰ سے راہنمائی حاصل کیوں نہیں کی۔؟ اس فتویٰ پر حکومت پاکستان کو سیمینارز کروانے چاہیے تھے، وہ فتویٰ ایک عملی حال ہے۔ اگر مریض کو علاج کرانے کا شوق نہ ہو تو ڈاکٹر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر مریض کو مرنے کا شوق ہو تو ڈاکٹر جتنا مرضی قابل ہو اُسے نہیں بچا سکتا۔

اسلام ٹائمز : پاکستان میں اس وقت بڑا مسئلہ کیا سمجھتے ہیں، آیا صرف انتخابی نظام میں نقائص ہیں یا اوے کا اوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔؟

قاضی فیض الاسلام : سارے مسائل کی جڑ پارلیمنٹ کا تشکیل کردہ فرسودہ نظام ہے، اگر اس کرپٹ نظام کا خاتمہ کر کے ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں اہل، باصلاحیت اور باکردار افراد اپنا کردار ادا کریں تو اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ اہل اور مخلص افراد پر مشتمل پارلیمنٹ ملک کے تمام مسائل حل کر سکتی ہے۔ ہم نے سطحی مرض نہیں بلکہ اصل جڑ کو پکڑا ہے۔

اسلام ٹائمز : پاک امریکہ تعلقات اور نیٹو کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔؟

قاضی فیض الاسلام : پاکستان کی خارجہ پالیسی جس بنیاد پر تشکیل پائی جانی چاہیے اس کا صرف ایک ہی اصول ہونا چاہیے کہ پاکستان، پاکستان اور صرف پاکستان۔ ہماری خارجہ پالیسی کو فقظ ایک ہی محور و مرکز کے گرد گھومنا چاہیے اور وہ ہے پاکستان کا مفاد۔ جب پاکستان کے مفاد کو ملحوظ رکھا جائے گا تو باقی سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز : اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہیے اور مذہبی رواداری کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے۔؟

قاضی فیض الاسلام : مسالک کے درمیان جزوی اختلافات صرف 5 فیصد ہیں۔ میں تمام علمائے کرام سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ ان 5 فیصد اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے ان علمی اختلافات کو (جنہیں صرف علماء تک ہی محدود رہنے چاہیے) عوام میں بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ عوام کو 95 فیصد مشترکات پر اکٹھا کریں۔ ہمارے 95 فیصد مشترکات کی بات کوئی نہیں کرتا، ڈاکٹر طاہرالقادری واحد شخص ہیں جنہوں نے تمام مسالک کو جوڑا ہے۔

اسلام ٹائمز : ڈاکٹر صاحب کینڈا چلے گئے ہیں ایک عرصہ سے وہاں پر مقیم ہیں، وطن کب واپس آئیں گے۔؟

قاضی فیض الاسلام : ہم سمجھتے ہیں کہ جس دن عوام اس نظام کے خلاف سڑکوں پر آ گئی اس دن ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اُن کے درمیان موجود ہوں گے، یہ مشروط ہے عوامی بیداری اور تعاون سے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام قوم بنے۔ 1947ء سے پہلے ہم ایک قوم تھے تو قائداعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کیا، مگر افسوس ہے کہ آج پاکستان ہے مگر ہم قوم نہیں، قوم تفرقوں، گروہوں اور ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے۔

تبصرہ