الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کیوں؟ --- سازش بے نقاب

موجودہ نظام انتخاب میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے!

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ARY News کے "پروگرام سوال یہ ہے" میں ڈاکٹر دانش کو خصوصی انٹرویو۔ ۔ ۔ ۔

معیشت، سیاست، آئین اور معاشرے کا برا حال ہے۔ آئین کا تحفظ کرنے والے آئینی ادارے ہی آئین کا تحفظ نہیں کر پارہے۔ 23 دسمبر کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جن مسائل و ملکی معاملات کی نشاندہی کی تھی آج وہ سب دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ انتخابی نظام کے نقائص دور کرنے، انتخابی اصلاحات کے نفاذ اور آئین و قانون کے مطابق انتخابات کروانے کی کے لئے قوم اور مقتدر اداروں کی جانب توجہ مبذول کروانے پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خلاف مخالفت، الزامات اور تنقید برائے تنقید کا ایک طوفان بپا کیا گیا۔ آج وہی مخالفین انتخابات کے انعقاد کے لئے رچائے گئے ڈرامے، لگائے گئے تماشے اور آئینی شقوں کے مضحکہ خیز اطلاق پر سراپا احتجاج ہیں۔ نہ کوئی سکروٹنی ہوئی اور نہ آرٹیکل62، 63 پر عمل ہورا۔ ہر قسم کے کرپٹ لوگوں کو اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ غیر آئینی الیکشن کمیشن اور "بزرگ" نگران اپنے محسنوں کو نوازنے اور پوری قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی تیاریاں مکمل کئے بیٹھے ہیں۔ آئین کے محافظ سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے یہ سب ہورہا ہے۔ لیکن افسوس ان کی جانب سے کوئی بھی ٹھوس اور قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا۔ شفاف انتخابات، قوم کے مستقبل اور آئین کے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور نہ ہی شفافیت کا کوئی امکان ہے۔ الیکشن کمیشن کی جس غیر آئینی تشکیل پر شیخ الاسلام نے اعتراض کیا تھا، آج اسی الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کرنے کے سبب کی سازش بے نقاب ہوچکی۔ آیئے! یہ سب شیخ الاسلام کی زبانی سنتے ہیں:

23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان کے جلسے میں اور پھر 12 جنوری 2013ء سے لے کر 17جنوری تک لانگ مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے میں، میں نے اس نظام انتخاب کی مکمل تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ ہر روز تسلسل کے ساتھ ان باتوں کو قوم کے سامنے رکھا اور انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات کرانے کے نقصانات واضح کئے۔ لوگوں کو بیدار کیا اور ان حقائق سے پوری قوم کو آگاہ کیا کہ ایک بہت بڑی گھنائونی سازش انتخابات کی شکل میں تیار کی گئی ہے۔ اس قوم کو ایک بہت بڑی تباہ کن اندھیری رات میں دھکیلنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ کرپٹ لوگوں کو انتخابات اور جھوٹی و جعلی جمہوریت کے نام پر پلٹا کر پھر مسند اقتدار پر بٹھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کو میں نے "مک مکا" کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ جس ادارے کی تشکیل آئین اور قانون کے خلاف ہوئی ہو، جس ادارے کے اراکین کی تقرری میں آئین و قانون اور عدل و انصاف کو نظر انداز کردیا گیا ہو، قوم اس ادارے سے کیسے عدل اور انصاف پر مبنی صاف اور شفاف انتخابات کی توقع کرسکتی ہے۔ ۔ ۔ ؟ میں نے عوامی انقلاب مارچ اور جلسہ ہائے عام میں تسلسل کے ساتھ یہ باتیں قوم پر واضح کیں۔ اس وقت بہت سے سیاسی و غیر سیاسی لوگ ہر روز صبح و شام میری مخالفت کرتے تھے اور میرے مطالبات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔ میرے مطالبات کو آئین کے خلاف کہتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا کہا ہوا ایک ایک لفظ آج نہ صرف سچ ثابت ہوا بلکہ اس وقت کے مخالفین اور ناقدین بھی آج اسی طرح چیخ رہے ہیں۔ ابھی ان کا چیخنا کم ہے۔ 11 مئی کے بعد جو کچھ ہونا ہے اس وقت ان کی چیخیں مزید نکلیں گی۔
میں یہ بات واضح طور پر ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں کہ اس نظام کے تحت آنے والے انتخابات بدی کا سمجھوتہ ہے جس میں سیاستدان، قانون، عدلیہ، الیکشن کمیشن، ریٹرننگ آفیسر، نگران سمیت کئی ادارے شریک ہیں۔ جعلی ڈگری ہولڈر جعلی جمہوریت ہی لاسکتے ہیں اور جعلی جمہوریت اس ملک کا بیڑا غرق اور مستقبل تباہ کردے گی۔ نا اہل کرپٹ، بددیانت، جھوٹے قسم کے لوگوں پر مشتمل قوم کی قیادت اس ملک کی کشتی کو ڈبو دے گی اور یہ قوم مایوسی و ناامیدی اور طرح طرح کے بحرانوں کی لپیٹ میں آکر روئے گی۔ اس قوم کو حقیقی جمہوریت چاہئے مگر افسوس دوبارہ جعلی جمہوریت کولانے کا ڈرامہ الیکشن کمیشن کے ناک کے نیچے اور ان کی آنکھوں کے سامنے رچایا جارہا ہے۔ یہ بات سن لیں کہ یہ سب ان کے ارادے سے ہورہا ہے، ان کے ڈیزائن سے ہورہا ہے، ان کی سازش اور منصوبہ بندی سے ہورہا ہے۔

آئین کی تضحیک

امیدواروں کو آرٹیکل 62، 63 کے مطابق اہل یا نااہل قرار دینے کے لئے ریٹرننگ آفیسرز سات دن تک پورے ملک میں تماشا کرتے رہے۔ کسی سے اس کی بیویوں کی تعداد پوچھتے تھے۔ ۔ ۔ کسی سے قومی ترانہ پوچھتے تھے۔ ۔ ۔ کبھی انگلش زبان میں 12پھلوں کے نام تیزی سے سنانے کا کہا جاتا۔ ۔ ۔ کسی سے براعظموں کے نام پوچھتے رہے۔ ۔ ۔ کسی سے نماز جنازہ پوچھتے ہیں۔ ۔ ۔ کسی سے دعائے قنوت پوچھتے ہیں۔ ۔ ۔ کیا آرٹیکل 62، 63 میں ان سوالات کے پوچھنے کا کوئی جواز ہے۔ ۔ ۔ ؟ بددیانت ریٹرننگ آفیسرز، یہ بددیانت، چھوٹی عدلیہ کے افسران، یہ راشی یہ نااہل اس پوری قوم کے سامنے آئین کا مذاق بناتے رہے اور آرٹیکل 62، 63 کا مذاق اڑتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی سیاسی قیادت کے انتخاب کا یہ طریقہ ہوتا ہے؟ کبھی کسی کو نااہل اور پھر دوبارہ اہل قرار دیا جارہا ہے۔

سات دن تک یہ ہوتا رہا، پاکستان کا ہر ٹی وی چینل براہ راست دکھاتا رہا کہ کیا تماشے ہورہے ہیں۔ عدلیہ، الیکشن کمیشن، نگران حکومت ہر کوئی اسے دیکھتا رہا۔ 86 سال کے ان بوڑھوں کو کلیدی عہدوں پر رکھا ہی اس لئے ہے کہ انہیں نہ کچھ سنائی دے، نہ دکھائی دے اور نہ سجھائی دے اور ان کے ماتحت چالاک ہوشیار اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے متعین افراد مخصوص ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے رہیں اور جو جھرلو پھیرنا ہے وہ سیاسی لوگ مل کر پھیرتے رہیں۔ میرا سوال ہے کہ جب قوم کے ہر فرد کو سات دن کے اس تماشے کا پتہ ہے تو الیکشن کمیشن کیوں خاموش رہا۔ ۔ ۔ ؟ اس ملک کی عدلیہ کیوں خاموش رہی۔ ۔ ۔ ؟ یہ تماشا ان کے ناک کے نیچے، آنکھوں کے سامنے کیوں ہوتا رہا۔ ۔ ۔ ؟ اور اسے کیوں ہونے دیا گیا۔ ۔ ۔ ؟ پہلے دن سے ہی کیوں نہیں روکا گیا کہ آرٹیکل 62، 63 اس قسم کے سوالات کا تقاضا نہیں کرتا۔

یہ سب اس لئے ہوا کہ یہ ایک سازش ہے۔ میں آج بتانا چاہ رہا ہوں کہ یہ تمام اقدامات دراصل آرٹیکل 62، 63 کو اگلی آنے والی جعلی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین سے نکلوانے کی سازش ہے۔ اس کی تضحیک اور مذاق اڑایا گیا کہ تم آرٹیکل 62، 63 کی بات کرتے تھے، یہ آرٹیکل 62، 63 کی شکل ہے کہ اس کا مطلب ایسے سوالات ہی پوچھنا ہے۔ نااہل اور بددیانت قسم کے ریٹرننگ آفیسرز اور چیف الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساز باز کرکے آرٹیکل 63، 62 کو ایک انٹرٹینمنٹ(تفریحی) آئیٹم بنادیا۔ امیدواروں کے نامزدگی فارمز اور سکروٹنی کو انٹرٹیمنٹ آئیٹم بنایا گیا۔ ریٹرننگ آفیسرز Misconduct کے مرتکب ہوئے، ان کو برطرف کردینا چاہئے، یہ بطور جج کرسی پر بیٹھنے کے اہل نہیں ہیںبلکہ جیل میں بھیجے جانے کے قابل ہیں۔

افسوس کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا حتی کہ عدلیہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یہ آزاد عدلیہ کہلاتی ہے اور آزاد عدلیہ کا معنی پاکستان میں یہ ہے کہ جو چاہے کرے، اس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو، یہ آزاد عدلیہ ہے۔ اسی وجہ سے میری پٹیشن کی سماعت نہیں ہوئی تھی اور الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کا مسئلہ سنا ہی نہیں گیا تھا کہ یہ ڈرامہ جو آج ہورہا ہے اس کی منصوبہ بندی تھی۔ اگر میری پٹیشن سن لی جاتی، اس الیکشن کمیشن کو توڑا جاتا اور آئین کے مطابق شفاف طریقے سے اچھے لوگوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جاتا تو یہ سب تماشا نہ ہوتا۔ سوائے چیف الیکشن کمشنر کے باقی افراد کرپٹ ہیں۔ بقیہ چار اراکین خریدے ہوئے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں، یہی حال نگرانوں کا ہے۔ کبھی نگران وزیر داخلہ ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں بولتے نظر آتے ہیں، کبھی الیکشن کمیشن کے افسر چیختے ہوئے میڈیا والوں کے ساتھ لڑائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ۔ ۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ ان کے نمائندے ہیں، یہ سیاسی پارٹیوں کا پولیٹیکل الیکشن سیل ہے جو ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے بنا ہے۔ یہ سب ڈرامہ اس لئے رچایا گیا ہے کہ لوگوں کے ذہن خراب کئے جائیں، آرٹیکل 62، 63 کے خلاف ایک ذہن سازی ہو اور 62، 63 کی یہ شکل قوم کو دکھاکر آنے والی جعلی پارلیمنٹ کے ذریعے ان شقوں کو ہی آئین سے نکال دیا جائے تاکہ آئندہ گند کو صاف کرنے کی کوئی آئینی شق باقی نہ بچے۔

قوم سن لے! یہ آرٹیکل 62، 63 اور آئین کے نام پر ایک دھوکہ اور اس ملک کے خلاف بہت بڑی سازش ہورہی ہے۔ مجھے ان اداروں پر حیرت ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خاموش بیٹھے ہیں۔ اس ملک میں کوئی الیکشن نہیں ہورہا۔ سکروٹنی کے نام پر سراسر دھاندلی، بدعنوانی اور خلاف آئین کام ہورہا ہے۔ میں نے سکروٹنی کے لئے 30دن کہے تھے، انہوں نے ایک ہفتہ کردیا تاکہ ایک ہفتے کے اندرایک ایسا نفسا نفسی کا عالم، ہنگامہ آرائی اور تماشہ لگ جائے کہ کسی کو کچھ ہوش ہی نہ رہے کہ کیا ہورہا ہے۔

قرض خوروں اور ٹیکس چوروں کو عام معافی

امانت، دیانت اور واجب الادا قرض و ٹیکس رقوم کی ادائیگی وغیرہ الیکشن لڑنے والے کے لئے آرٹیکل 63 کے ذیل میں ضروری ہے مگر افسوس کہ مکمل ثبوت کے باوجود سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک کے کسی بھی متعلقہ ادارے یا کورٹ نے اس سلسلہ میں معمولی سی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

1990ء سے بڑے بڑے سیاسی لیڈر مالیاتی معاملات پر متعلقہ عدالتوں سےStay لئے ہوئے ہیں یا بغیر Stay لئے ڈیفالٹرز ہیں۔ ان تمام کا کیس عدالتوں میں موجود ہے اور آئین کے مطابق مالیاتی معاملات پر 6مہینے سے زیادہ Stay نہیں دیا جاسکتا۔ مگر افسوس کہ سپریم کورٹ نے اور متعلقہ عدالتوں نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔ ۔ ۔ میمو سکینڈل موجود اس پر کچھ نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ ایبٹ آباد کمیشن، NLC، اوگرا، ایفی ڈرین کیس، ڈرگز کیس، حج کرپشن کیس اور کتنے ہی کیس ہیں جو سپریم کورٹ میں موجود ہیں مگر اس کا فیصلہ نہیں ہورہا۔ ۔ ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں کیس موجود ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں نے قومی بینکوں سے قرض معاف کروائے مگر ان کی طرف کسی کو آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ یوٹیلٹی بلز اور ٹیکس نادہندہ کے نام قوم کے سامنے آچکے لیکن کوئی بھی ایکشن نہ لیا گیا بلکہ سکروٹنی میں ریٹرننگ آفیسرز نے ان لوگوں کو کلین چٹ دے دی۔ ۔ ۔ اب ان لوگوں کے پاس جواز موجود ہے کہ ہم پر کوئی دھبہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو ریٹرننگ آفیسرز نے 62، 63 کے تحت کلیئر کردیا ہے حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ

  1. ان ڈیفالٹرز کی لسٹ نہ صرف سپریم کورٹ میں موجود ہے بلکہ سپریم کورٹ نے اس پر ایک عدالتی کمیشن بھی بنایا تھا 1971ء سے لے کر 1990ء تک کے بینکوں کے ڈیفالٹرز کے نام لسٹ میں موجود تھے پھر 1992ء سے 2009ء تک جنہوں نے قرضے معاف کروائے، وہ ریکارڈ بھی اسی سپریم کورٹ میں ہے۔
  2. ستمبر 2012ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی ایک رپورٹ پیش کی گئی کہ پچھلے نام نہاد پانچ سال جمہوری دور میں کتنے سو ارب روپے کے قرضے لے کر معاف کروائے گئے۔
  3. ہزارہا دستاویزات سپریم کورٹ میں ایسی بھی ہیں جو بینکوں نے جمع کرائی ہیں کہ کس کس نے کتنا کتنا قرض لیا اور معاف کروایا یا ابھی تک ادا نہیں کیا۔
  4. بعض لوگوں نے اپنے قرضے معاف نہیں کرائے لیکن ادا بھی نہیں کئے اور اس کے عوض متنازعہ جائیدادیں بینکوں میں دے کر جان چھڑالی۔
  5. سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 20 اکتوبر2010ء کو ایک لسٹ جاری کی ہے۔ جس میں ان تمام کمپنیز کے نام ہیں جو ہزارہا ارب روپے کی ڈیفالٹرزہیں کہ قرض لئے گئے مگر آج تک ادا نہیں کئے۔ یہ لسٹ سپریم کورٹ کو بھی دی گئی مگر اس ساری چیزوں کے باوجود کچھ نہ ہوا۔

اگر الیکشن کمیشن یہ دستاویزات طلب کریں تو یہ مکمل ریکارڈ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ اور سٹیٹ بینک سے فوری مل سکتا ہے مگر جب یہ کام کرنے کے لئے انہیں ان کے "بڑوں" نے بٹھایا ہی نہیں تو وہ یہ کام کیوں کریں گے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ریکارڈ پر سب کچھ ہے مگر وہ یہ صفائی کرنا نہیں چاہتے۔ وہ سارے مجرموں کو محفوط راستہ دے رہے ہیں۔ یہ صفائی تب ہوگی جب اداروں سے سیاست نکلے گی۔ پاکستان کے ادارے ریاست کے لئے نہیں بلکہ سیاست کے لئے کام کررہے ہیں۔ اس لئے میں نے آواز بلند کی تھی "سیاست نہیں ریاست کو بچائو"۔ میں سیاست کا مخالف نہ تھا، نہ ہوں مگر گندی سیاست کا مخالف ہوں۔ بدعنوانی کی سیاست کا مخالف ہوں، کرپشن کی سیاست کا مخالف ہوں، جانبداری کی سیاست کا مخالف ہوں، بے ایمانی کی سیاست کا مخالف ہوں، لوٹ کھسوٹ اور لوٹ مار کی سیاست کا مخالف ہوں۔ میں اس سیاست کا مخالف ہوں جو ہماری ریاست پاکستان کو کھائے جارہی ہے۔

قوم کے مجرم 5 ادارے

میں قوم کو بتانا چاہوں کہ پانچ ادارے قوم کے مجرم ہیں:

  1. قوم کا سب سے بڑا مجرم الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت چار اراکین کرپٹ ہیں۔ یہ اراکین سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں۔ اس ادارے سے یہ سب کام کروانے کے لئے منصوبہ بندی کے تحت اس کی غیر آئینی تشکیل کی گئی اور ناجائز تحفظ دیا گیا۔
  2. قوم کا دوسرا بڑا مجرم نیب NAB (قومی احتساب بیورو) ہے۔ NAB کے پاس ان تمام وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، صدر، گورنرز، ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز اور بیوروکریٹس کی کرپشن کا سارا ریکارڈ موجود ہے جو اس نے سکروٹنی کے عمل کے دوران الیکشن کمیشن کو پیش ہی نہیں کیا۔
  3. قوم کا تیسرا بڑا مجرم FIA ہے۔ جس کے پاس جرائم کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اور اس نے بھی یہ ریکارڈ سکروٹنی کے دوران الیکشن کمیشن کو پیش ہی نہیں کیا۔
  4. اس قوم کا چوتھا بڑا مجرم FBR (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) ہے۔ اس نے بھی کمیشن میں اپنا مکمل ریکارڈ پیش نہیں کیا۔
  5. قوم کا پانچواں بڑا مجرم سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ انہوں نے ڈیفالٹرز کی لسٹ سے پاکستانی قوم کو بروقت آگاہ نہیں کیا اور ان معلومات تک کمیشن کو براہ راست رسائی نہیں دی۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے ان پانچوں اداروں نے یہ جرم کیوں کیا؟ اس لئے کہ ان اداروں میں انہی سیاستدانوں کے مقرر کردہ افراد کی تقرریاں ہوئی ہیں۔ یہی سیاسی قائدین ان افسروں کی تقرریاں کرتے ہیں، تنزلی بھی یہی کرتے ہیں، ٹرانسفر بھی یہی کرتے ہیں اور بڑے بڑے اگر معطل ہوجائیں تو بحال بھی انہوں نے کروایا ہے۔ پس یہ ادارے اور ان کے سربراہان بحال ہونے کا صلہ، ترقیوں کا صلہ، تقرری کا صلہ، آئندہ تنزلی سے اپنے آپ کو بچانے کا صلہ اس صورت میں دیتے ہیں کہ ان سیاستدانوں کے گناہوں کو چھپالیتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ کرپشن کے الیکشن ہیں، دو مہینے کی بات ہے، پلٹ کر انہوں نے پھر اقتدار میں آنا ہے۔ "وہ" آئیں یا "یہ" آئیں یا مل جل کر آئیں، آنا انہوں نے ہے، نئے لوگ نہیں آئیں گے۔ اس لئے کہ الیکشن کا نظام نئی قیادت کا دشمن ہے۔ ۔ ۔ الیکشن کا نظام امانت اور دیانت کا دشمن ہے۔ ۔ ۔ الیکشن کا نظام سچی سُچی جمہوریت کا دشمن ہے۔ ۔ ۔ الیکشن کا نظام آئین، قانون، عدل اور انصاف کا دشمن ہے۔ انہیں پتہ ہے انہی لٹیروں نے آنا ہے۔ اگر ان کے ریکارڈ ظاہر کردیں اور معلومات عوام تک پہنچادیں تو ان لوگوں نے برسرقتدار آتے ہی ہمارے گریبان کو پکڑ لینا ہے۔ لہذا انہوں نے اپنی نوکریاں بچانے کے لئے الیکشن کمیشن کو معلومات پیش نہیں کیں یا بروقت نہ دیں اور حیلوں بہانوں سے کام لیا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔

٭ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ میں یہ بات بیان کی جس میں تسلیم کیا ہے کہ "ان کے پاس FBR، NAB اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بینک کے قرضوں کے ڈیفالٹرز، قرض معاف کروانے والوں کے نام اور نادہندگان کی فہرست تیار نہیں ہے"۔

ریٹرننگ افسروں نے آرٹیکل 62 کا حلیہ بگاڑا، آرٹیکل 62، 63 کے تحت سارا ڈرامہ رچایا اور آئین کا مذاق اڑایا۔ قوم کو "تفریح" مہیا کی جبکہ آرٹیکل 63 جو ڈیفالٹرز اور جو لٹیروں کو روکتا تھا اس کا ایک سوال بھی نہیں کیا گیا، کیوں۔ ۔ ۔ ؟ اس لئے کہ ریٹرننگ آفیسرز کے پاس لسٹیں نہیں تھیں کہ کون لوگ ڈیفالٹرز ہیں۔ ۔ ۔ ؟کس کس نے قرض معاف کروائے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کس کس نے لوٹ کھسوٹ کی ہے۔ ۔ ۔ ؟ بینکوں کے قرضے کس نے واپس نہیں کئے۔ ۔ ۔ ؟ کس نے بلز ادا نہیں کئے۔ ۔ ۔ ؟ کون ٹیکس نادہندہ ہے۔ ۔ ۔ ؟ متعلقہ محکموں نے معلومات ریٹرننگ آفیسرز کو نہیں پہنچائیں۔

میں سوال کرتا ہوں کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس یہ لسٹیں نہ تھیں تو انہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کیوں نہیں کیا کہ ہم سکروٹنی نہیں کرواسکتے کیونکہ ہمارے پاس لسٹیں موجود نہیں۔ سٹیٹ بینک، ایف بی آر، نیب ہمیں لسٹیں مہیا نہیں کررہا یا سپریم کورٹ سے نہیں مل رہیں۔ انہیں میڈیا کے ذیعے قوم کے ہر فرد کو بتانا چاہئے تھا۔ سکروٹنی کیسے ہو؟ قرض ہڑپ کرنے والوں کو کیسے پکڑیں؟ لٹیروں کو کیسے پکڑیں؟ اس لئے کہ ریٹرننگ آفیسرز کے پاس لسٹیں نہیں ہیں، وہ سوال کیا کریں؟ سکروٹنی کیا کریں؟ چیک کیا کریں؟ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ لٹیروں کو دروازے سے گزارنا تھا، ان کرپٹ لیڈروں کو جو ملک کا مال حرام طریقے سے کھا کے پل گئے ہیں ان کو دوبارہ ملک کا حکمران بنانا تھا۔ یہ جرم الیکشن کمیشن نے کیا اور اپنی زبان سے لاہور ہائیکورٹ میں اس کا اعتراف بھی کرلیا۔

٭ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ریٹرننگ اینڈ اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز کو ہدایات کی، جو ہینڈ بک دی ہے اس ہینڈ بک میں لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی مذکورہ پٹیشن میں درج معاملات زیر بحث ہی نہیں لائے گئے۔ گویا ان کے نزدیک قرض خور اور ٹیکس چور پارلیمنٹ میں چلے جائیں، ان کو فرق ہی نہیں پڑتا۔ الیکشن کمیشن ان کو پارلیمنٹ بھجوانے کے لئے بیٹھا ہے، رکوانے کے لئے نہیں۔ سابقہ حکومت نے ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تقرری حکومت کے آخری دنوں میں کی۔ کمیشن کا سب سے پہلا بیان یہ آیا کہ اسے کیوں لگایا لیکن بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بیان دیا کہ ہمیں اس تقرری پر کوئی اعتراض نہیں، اسے برقرار رکھا جائے۔

الیکشن کمیشن تو ہر دوسرے دن بیان بدل لیتا ہے۔ یہ پوری قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے شور مچاتے ہیں۔ یہ کئی اداروں کی ملی بھگت ہے۔ میڈیا میں ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں، قوم کہے کہ واہ بھئی واہ! الیکشن کمیشن نے کمال کردیا۔ ۔ ۔ 62، 63 کا حق ادا کردیا۔ ۔ ۔ پکڑ لیا۔ ۔ ۔ گویا ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے تماشے کریں تاکہ قوم میں ان کی نیک نامی ہو۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اصل میں کیا ہونا ہے۔ بالآخر سب کو پاک صاف کا سرٹیفیکیٹ جاری ہوجائے گا۔ قوم نے دیکھا کہ جعلی ڈگری والے پہلے روکے گئے، سزا سنائی گئی اور بالآخر ان کو بھی کلیئر کردیا گیا۔ یعنی جعلی ڈگری ہولڈرز پر ایکشن لینے میں بھی واضحیت نہیں، کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ ریٹرننگ افسروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی جج ہیں۔ عدلیہ کے آزاد جج ہیں، آزاد کا مطلب ہے جو چاہو کرو تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ الیکشن کمیشن کے ممبران انہیں ہدایات دیتے ہیں کہ کس طرح ڈیل کرنا ہے، کس کو چھوڑنا اور کس کو روکنا ہے۔

٭ 31مارچ 2013ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ایک لیٹر جاری ہوا اور 3 اپریل 2013ء کو احتساب بیورو کی طرف سے ایک لیٹر جاری ہوا۔ جس کے مطابق بڑے بڑے سیاسی لیڈروں پر نادہندگی اور کرپشن کے کیس ہیں۔ سوال یہ ہے ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ ۔ ۔ ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے ذاتی نام پر قرضے نہیں لیتے بلکہ اپنی کمپنیوں کے نام پر قرضے لیتے ہیں۔ کسی لیڈر کے نام پر قرض کی تفصیلات جاننا چاہیں تو کوئی ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ اس لیڈر نے اپنے نام پر نہیں بلکہ کمپنی کے نام پر قرض لے رکھا ہے، اب یہ ادارے اس شخص کو نہیں بلکہ کمپنی کو ڈیفالٹر قرار دیتے ہیں۔ اپنے ذاتی نام پر قرضہ صرف وہ شخص لے گا جو بہت ہی سادہ، پرلے درجے کا بیوقوف ہے۔ ان سب لوگوں نے کمپنیاں بنارکھی ہیں جن میں اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد کے شیئر 49 فیصد تک رکھتے ہیں۔ اب قیامت تک آپ ان کو بینکنگ لاز کے مطابق پکڑ نہیں سکتے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ کرپشن میں یہ اتنے ماہر ہیں کہ بڑی بڑی جماعتوں کے نامور سربراہوں کے کیس عدالتوں میں 12,12 سالوں سے التواء میں پڑے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آزاد عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے پاس آنکھیں نہیں ہیں کہ دیکھ سکیں۔ ۔ ۔ کان نہیں ہیں کہ سن سکیں۔ ۔ ۔ یہ سیاسی قائدین بجلی کے کروڑہا روپے کے ڈیفالٹر ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے مگر کوئی ان کو پوچھنے والا ہی نہیں۔ اس تمام کو ذکر کرنے کا مقصد کسی کو ذاتی طور پر تنقید کا نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس نظام کو ننگا کرنا ہے۔

تبدیلی، موجودہ نظام کے تحت ممکن نہیں!

قوم ایک تبدیلی چاہتی ہے۔ مگر قوم کو یہ بتایا جارہا ہے کہ الیکشن کے ذریعے تبدیلی آئے گی جبکہ الیکشن منصفانہ ہو ہی نہیں رہا۔ نگران حکومت، الیکشن کمیشن یا دوسرے ادارے الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے ایسے کوئی اقدام نہیں کررہے ہیں جس سے کوئی صاف اور شفاف الیکشن ہو اور تبدیلی آئے۔ آرٹیکل62، 63 کے مطابق نئے لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں، یہ نہیںہوگا۔ اس سسٹم کے تحت الیکشن کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ انارکی، خون خرابہ ہوگا اور ریاست پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ اس نظام سے قیادت نہیں بدلے گی۔ سچی جمہوریت کے لئے بہت بڑا انقلاب چاہئے۔ کم و بیش دس ہزار سیاستدان، افسران اور بیوروکریٹس کو جیل میں ڈالنا ہوگا۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ گیارہ مئی کو ہم ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ میں پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پرامن احتجاج کریں اور اس دھاندلی کے نظام کے خلاف عوامی تحریک کے زیر اہتمام ملک بھر میں ہونے والے دھرنوں میں شریک ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں دھرنوں میں آکر پرامن طریقے سے بیٹھیں اور دنیا کو پیغام دیں کہ ہم اس کرپشن کے نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ہم جعلی جمہوریت کو نہیں مانتے۔

We need a Substantial Change.... We need a True Democracy....We need Complete Change of System..... اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس قوم کی تقدیر نہیں بدلے گی بلکہ ملک تباہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو قائم رکھے۔ خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو ذمہ دار سارے قومی ادارے ہوں گے۔ خواہ خون بہے۔ ۔ ۔ خواہ ادارے برباد ہوں۔ ۔ ۔ خواہ ملکی معیشت برباد ہو۔ ۔ ۔ خواہ قوم مایوس ہو۔ ۔ ۔ ذمہ داری اس وقت خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھنے والے اداروں سمیت ملک کے ہر ادارے کی ہوگی۔ میں اپنی آواز ہر ادارے کے کان تک پہنچا رہا ہوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کو گواہ بنارہا ہوں۔ عوام گیارہ مئی کے دھرنوں میں شریک ہوں۔ ۔ ۔ احتجاج سے ثابت کریں کہ ہم اس بددیانتی اور بدعنوانی کے نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ ۔ ۔ انقلاب کے لئے اٹھیں! جب تک اس نظام کا تختہ نہیں الٹا جائے گا اس ملک کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

تبصرہ