تعلیم سب کیلئے

تاریخ گواہ ہے کہ جن اقوام اور ملکوں نے تعلیم پر توجہ دی وہ ترقی کی معراج تک پہنچی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں تعلیم پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیم کی جگہ سڑکیں اور پل بنانا حکومت کی اولین ترجیحات رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غربت، جرائم اور چائلڈ لیبر کا غیر یقینی حد تک اضافہ ہوا۔ پاکستانی نوجوان میں کسی بھی صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مسائل سے بھرے ماحول میں وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود بھی ہمارے طلباءو طالبات نے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں بھی زندگی کے ہرشعبے میں اعلی کارکردگی دکھاتے ہوئے پاکستان کو دنیا میں نمایاں مقام دلایا ہے -ملک کو اس وقت جو چیلنجز اور مسائل درپیش ہیں اس کا واحد حل تعلیم یافتہ سوسائٹی ہے اور تعلیم ہی ایسا موثر ذریعہ ہے جس سے ہم نہ صرف معاشی اور اقتصادی ترقی کی منزلیں خوش اسلوبی سے طے کر سکتےہیں بلکہ جہالت، غربت، کرپشن اور دہشت گردی جیسی برائیوں کا قلع قمع بھی کر سکتے ہیں۔ عالمی برادری ایک عرصے سے یہ حقیقت تسلیم کر چکی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ افریقہ اور ایشیاء کے بعض علاقوں میں یہ ہدف سن 2017 تک بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ ترقی پذیر علاقوں میں 100 میں سے 87 بچے پرائمری اسکول کی مکمل تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کئی غریب ملکوں میں 10 میں سے چار بچے آخری جماعت میں آنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح دیہی، جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع ویسے ہی کم ہیں اور لڑکیوں کے ساتھ تو ابھی بھی دنیا بھر میں تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔

پاکستانی اراکینِ پارلیمنٹ کی ڈگریاں جب پے درپے جعلی ثابت ہونے لگیں، اور انہیں نااہل قرار دیا جانے لگا، تو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ "ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی" اور اپنے مؤقف کے حق میں آخر تک دلائل بھی دیتے رہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ کی اسی بات کے حساب سے اگر ہم پاکستان میں نظامِ تعلیم کی حقیقت کو دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ "شکر ہے تعلیم تو ہے، چاہے معیاری ہو یا غیر معیاری" پاکستان میں غریبوں کی پہنچ میں معیاری تعلیم تو کیا آئے گی، تعلیم بھی روز اول سے ہی غریب لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ ہمارے ملک میں اب بھی اسی لاکھ بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے، جب کہ کچھ سال پہلے یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کی شرحِ خواندگی، تعلیمی سہولیات، معیارِ تعلیم، اسکولوں میں داخلے کی شرح، اساتذہ کی تربیت و تعلیمی قابلیت نہ صرف مایوس کن ہے، بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اپریل 2015 میں جاری ہونے والے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی، کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو "2016 تک تعلیم سب کے لیے" کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہونے والا نظامِ تعلیم اب کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں طبقاتیت اپنے عروج پرہے۔ غریب کا بچہ چاہے کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو وہ ایک ایسے بے کار پرزے کی طرح ہی ہے جو کھبی مشینری کیلئے کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔

ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات تو دیکھیے، ایک ہمارے وزیراعظم ہیں جو کہ پاکستان کے ہر شہر میں موٹر وے بنانے کے خواب کا اعلان کر چکے ہیں اور دوسری طرف صدر مملکت سے یہ گزارش کی گئی کہ جو پچھلے سال بجٹ میں تعلیم کے لئے رقم مختص کی تھی وہ ابھی پوری جاری نہیں ہو سکی تو برائے مہربانی اس کو جاری کرنے کی ہدایات تو فرمائیں، موصوف کا کہنا تھا کہ خزانے میں پیسہ ہی نہیں ہے تو رقم کہاں سے جاری کریں۔ صدر مملکت کے اس بیان سے تو لگتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شاید اپنے بچوں کی آف شورز کمپنیاں بیچ کر موٹر ویز بنا رہے ہیں۔ صدر مملکت کی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران کی ترجیحات میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کے ساتھ تعلیم اور معیاری تعلیم کے نام پر جو گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں، اس کے نتائج آنے والے وقتوں میں بہت شدت سے سامنے آئیں گے۔

احمد حسن

تبصرہ