تعلیم سب کیلئے

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اعتراف ازل سے ہر مہذّب معاشرہ کرتا آیا ہے اور ابد تک کرتا رہے گا۔ تاہم دین اسلام میں اس کی اہمیت، افادیت اور ناگزیریت کا اقرار پہلے الہامی حرف اقراء سے ہوا، یہ اعزاز اور امتیاز صرف دین اسلام کو حاصل ہے جس میں پڑھے ہوئے اور ا ن پڑھ کو ایک جیسا قرار نہیں دیا گیا۔ تعلیم خود کو شناخت کرنے نکھارنے، ایک امن اور قانون پسند خوشحال معاشرہ کی تشکیل میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔ تمام تر ادراک، فہم و فراست کے باوجود پاکستانی معاشرہ میں حکومتی سطح پر تعلیم کے فروغ اور حصول کو وہ اہمیت اور فوقیت نہیںدی گئی جس کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کی بنیادی آئینی ذمہ داریوں میں یکساں، معیاری اور جدید تعلیم کی فراہمی شامل ہے۔ مگر افسوس اس آئینی اسلامی تقاضا کو پورا کرنے کے حوالے سے مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ تعلیم کو بھی طبقات اور خانوں میںبانٹ کر قوم کو عصری ترقی کے دھارے سے الگ کر دیا گیا بلکہ اس کا نتیجہ ہم انتشار، عدم برداشت اور عدم مساوات کی صورت میں بھگت رہے ہیں

21ویں صدی میں تعلیم کی اہمیت پہلے کی نسبت زیادہ تسلیم کی جا رہی ہے۔ آج کے ترقیاتی یافتہ دور میں تعلیم کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ تعلیم انسان کو اپنی صلاحیت پہچاننے اور اس کی بہترسے بہتر تربیت کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے یقیناً تعلیم یافتہ لوگ ہی ایک بہتر سماج اور ایک ترقی یافتہ قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ من حیث القوم ہم اب تک تعلیم کی ا ہمیت اور حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ پاکستانی عوام کی پہنچ میں معیاری تعلیم تو کیا آئے گی، بنیادی تعلیم بھی روز اول سے عام پاکستانی کی دسترس سے باہر ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ۔ ۔ ۔

ایک چینی کہاوت ہے، کہ اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ، اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اْگاؤ اور اگر آئندہ ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ، مگر افسوس صد افسوس ہم آئندہ پانچ سالوں کی بھی بہتر انداز میں منصوبہ بندی نہیں کر پاتے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

  • شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 160ویں، اسلامی ممالک میں 54 ویں اور دنیا کے گنجان ترین ممالک کی تنظیم E-9 میں آخری نمبر پر ہے۔
  • یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں اب بھی اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جوسکول نہیں جاتے۔
  • ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ صوبہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 6480 اور صوبہ بلوچستان میں یہ تعداد 5000 بتائی گئی ہے۔
  • پاکستان کے بدعنوان ترین شعبوں میں محکمہ تعلیم کا نمبر بھی پہلے دس میں ہے۔
  • ہمارے ہاں تعلیم کیلئے مختص ہونے والا بجٹ سوفیصد جاری نہیں کیا جاتاجس کی وجہ سے تعلیمی منصوبے تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔

    پاکستان میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم بھی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ نرسری میں داخل ہونے والے ہر ہزار طالبعلم میں سے صرف سات طالبعلم یونیورسٹی سطح تک پہنچ پاتے ہیں۔

  • ہماری کوئی بھی یونیورسٹی ان چار سو اولین اداروں میں شامل نہیں ہے جن کی رینکنگ عالمی سطح پر کی گئی ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی پہلے سو ایشیائی اداروں میں بھی شامل نہیں ہے۔
  • 2012 میں حکومت کے منصوبہ بندی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 75 فیصد بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔

ہماراتعلیمی بجٹ

پاکستان میں تعلیم کیلئے مختص بجٹ 2015-16میں جی ڈی پی کا2.6%ہے۔ ہمارا تعلیم کیلئے مختص بجٹ بھوٹان، بنگلہ دیش، مالدیپ، ایران، کینیا، سری لنکا، انڈیا اورتاجکستان جیسے تمام ممالک کے بجٹ کے نصف سے بھی کم ہے۔ اور جن ملکوں نے ترقی کی وہ اپنے بجٹ کا 10فیصد سے بھی زائد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔

ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا!

عزیزطلبہ! مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ تمام تر سوچ بچا ر کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان میں جدید تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارے نوجوان جہالت کے اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی عیش کے لیے نام نہاد میگا منصوبے پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے مگر تعلیم کو ترجیح نہیں دیتا۔ اب ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا۔ ہم نے " تعلیم سب کیلئے" مہم کا آغاز کیا ہے جس میں ہم صدائے احتجاج بلند کرنے جارہے ہیں تاکہ آئندہ آنے والے بجٹ میں تعلیم کیلئے 4 فیصد بجٹ مختص کروایا جائے۔

ہمارے مطالبات

  • ملک بھر میں نرسری سے لے کر 12thگریڈ تک ایک نصاب اور یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کیا جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔
  • آئین پاکستان کے مطابق طریق زندگی کے لئے جو رہنما اصول مسلمہ ہیں اْن کی روشنی میں تعلیمی پالیسی اور نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے۔
  • تعلیم کیلئے وفاقی بجٹ کا4فیصد مختص کیا جائے، اور آئندہ سالوں میں اس میں مسلسل اور بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے10 فیصد تک بڑھایا جائے۔
  • عالمی معیار کے مطابق 90فیصدشرخ خواندگی کے حصول کیلئے سیاسی، جماعتی اورذاتی مفاد سے بالاتر ہوتے ہوئے آئندہ دس سالوں کیلئے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے اور حصول تعلیم کی لگن کے فروغ کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر مہمات چلائی جائیں۔
  • تعلیمی ماہرین پر مشتمل خود مختار اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایا جائے جو کہ آئین پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق جامع نظام ترتیب دے اوریہ کمیشن دس سالہ تعلیمی پالیسی بنانے کا پابند ہو۔
  • پرائمری، سیکنڈری، ہائیر سیکنڈری، کالجز، جامعات کے اساتذہ کے لئے معیار، تربیت اور مراعات کا نظام موثر اور شایان شان بنایا جائے، ٹیچر ٹریننگ جدید تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
  • وسیع تر بنیادوں پرہر سطح کی معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ ملک بھر میں تعلیمی اداروں میں، کلاس رومز، چار دیواریاں، بجلی، بیت الخلااور کھیل کے میدان کی سہولتیں لازم کی جائیں۔
  • ہر سطح کی مذہبی علاقائی، لسانی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں سے خارج کیا جائے۔
  • تعلیمی اداروں کے اندرہونے والی کرپشن کی روک تھام کیلئے نیب کا خصوصی سیل قائم کیا جائے، جبکہ دہشتگردی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو سیف زونز قرار دیتے ہوئے سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظام کیے جائیں۔
  • سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار کی بہتری کیلئے قومی، صوبائی اور بلدیاتی نمائندوں کے بچوں کیلئے انٹرمیڈیٹ تک صرف سرکاری اور متعلقہ حلقے کے اندر تعلیمی اداروں میں ہی تدریس کا قانون بنایا جائے۔
  • گریڈ 15اور اس سے اوپر کے تمام گریڈز کے تمام سرکاری آفیسرز کے بچے بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے پابند ہوں۔
  • عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کے بچوں کی فقط پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیز میں تدریس بھی متعلقہ قانوں سازی کا حصہ ہو۔

تبصرہ