ترجمان ماضی، شان حال - اقراء یوسف جامی

اقراء یوسف جامی
iqrayousaf146@gmail.com

مسلم ریاستوں کی تاریخِ انقلابات کا مطالعہ اس بات کو چمکتے سورج کی طرح عیاں کرتا ہے کہ ریاستوں اور معاشروں کو بدلنے کا بنیادی اور میرے خیال میں واحد عنصر اس معاشرے کی نوجوان نسل کی آبیاری ہے۔ اس نسل کا اپنی اصل سے تعلق ہے۔ ان نوجوانوں کا دین سے لگاؤ ہے۔ مستقبل کے شاہینوں کا اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت اور اس دنیا کے لئے مانگی جانے والی عافیت اور حفاظت ٍ کو نا صرف از سرِ نو تشکیل دیتی ہے بلکہ جملہ خرافات و برائیوں کا قلعہ قمع بھی کرتی ہے۔ دینِ اسلام نوجوانوں کی تربیت پرجس قدر اہمیت نوجوان نسل اور اس کی تربیت کودی گئی ہے شاید ہی کوئی اور معاملہ ایسا ہو۔ اور یہ بات کہنے میں زرہ بھر مبالغہ نہیں کہ مستقبل کے ان معماروں کی کی جرات و بے باکی اور تابندگی اس وقت تک ماند نہیں پڑ سکتی جب تک اس ملت کے ہاتھوں میں اسوۃ حسنہ کی مشعل اپنی پوری مضبوطی کے ساتھ باقی رہے گی۔ ہمارا ماضی جسے ہم تابناک اور شاندار ماضی کہہ کر یاد کرتے ہیں تو جس طرح آسمان کی بلندیوں پر تابندہ و روشن ستاروں کی تابندگی ان کی ذاتی نہیں بلکہ سورج کی مستعار اور مستفاد ہوتی ہے بعینہ اسی طرح ماضی کی ان تابناکیوں کی چمک اپنی نہیں بلکہ اس نور کا منبع و مرکز نورِ نبوت اور سیرتِ مصطفٰیﷺ کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ یہی وہ چراغِ منیر ﷺ ہیں جس سے نورِ ہدایت پھوٹتے ہیں اور اس نور سے پھوٹتی روشنی میں ہی سفر کرتے ہوئے صراطِ مستقیم کو پایا جا سکتا ہے۔ اس بحث سے یہ تو طے پایا کہ مسلم نوجوان کی تربیت اور زندگی کا مقصد کا راز حیاتِ طیبہﷺکی روشنی میں پنہاں ہے۔ اب موجودہ حالات کی بات کریں تو ہمارے ہاں بعض طبقات نے اس حیاتِ طیبہﷺ میں نوجوان نسل کی تعلیم تربیت کرتے ہوئے یا کم از کم اس کا دعوی کرتے ہوئے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بیراگ لینا ہے۔ ان کو لگتا ہے انفرادی اعمال ہی کسی بھی انسان کی بخشش کا سامان ہیں اور اس فکر نے بخشش کو انعام و اکرام پہ فوقیت دے دی ہے، انعام و اکرام جب آپ انسانیت کی بہتری، اپنے معاشرے اور ریاست کی بہتری اپنا فرضِ عین سمجھتے ہوں اور جدوجہد کرنے لگیں۔ اس جدوجہد پہ آقا کریمﷺ جب مسکرا کر اپنے شیروں کو دیکھتے ہوں گے اس انعام و اکرام کی لذت اور سکون کو بلکہ اس تصور کو ہی اس مخصوص طبقے نے اپنی فکر میں کہیں چھپا دیا ہے۔ اک اور طبقہ بھی یہاں موجود ہے۔ جسے لگتا ہے ان کے علاوہ، ان کی سوچ اور فکر کے علاوہ سب غلط ہے۔ یہ وہ بد گہر ہیں جن کو اسلام کی اصل سے اور اس اصل کی ترویج کرنے والوں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ تزریق ان کا شعار ہے۔ اس طبقے کے مطابق ان کی فکر اور نظریات (جو نجانے پائے بھی جاتے ہیں کہ نہیں) میں اکتلاف کی گنجائش نہیں۔ گزشتہ دنوں اک واقعہ کے بعد میں نے تہذیب و وقار کے ساتھاختلاف کرتے ہوئے کچھ ٹویٹس tweets کیئے تھے اور وہاں جو گالم گلوچ اور طعن و تشنیع کا جو بازار گرم ہوا خدا پناہ۔ اور میں وہ ٹویٹس ڈیلیٹ کر کے جان چھڑائی۔ ذاتی تجربہ اس لئے شاملِ تحریر کیا کہ یہ بات الزام نہ رہے۔ ہمارے معاشرے میں ان نام نہاد اسلامی طبقات کے علاوہ کچھ لبرل اور اسلام بیزارطبقات بھی پائے جاتے جن کے مطابق نماز وقت کا ضیاع ہے اور حجاب عورت پہ ظلم ہے۔ تعلقِ مطالعہ ہو تو دونوں طبقات میں اک صفت مشترک پائی جاتی ہے۔

اور وہ ہے "انتہا پسندی"

اک طبقے نے دنیا کو اتنا قریب کر لیا ہے اس کے نزدیک آخرت کا کوئی وجود نہیں اور اگر ہے تو یہ انہیں ظلم لگتا ہے۔ دوسرے نے طبقے نے تصوف کے نام پہ نوجوان نسل کو سر جھکا کر بیٹھنا سکھا دیا ہے کہ دنیا میں چاہے جو ہوتا رہے تمہارا اس سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں۔ آپ ان دونوں طبقات میں سے کسے اپنے ماضی کا ترجمان کہیں گے اور حال کی شان کہیں گے؟ اس اعزاز کے لیئے ضروری ہے کیا؟ وہ کیا پیمانہ ہوگا جس پہ پرکھتے ہوئے ہم اس انعام والے طبقے کی پہچان کر پائیں گے؟

پہلا بنیادی اور اہم۔ ۔ ۔ بلکہ اس پوری تھیوری میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا نکتہ یہ ہے کہ ان کا راہبر۔ ۔ راہبرِ ترقی و کمال ہوگا۔ ( راہبرِ ترقی و کمال کے عنوان پر قریبا دوسال پہلے اک آرٹیکل منظرِ عام پہ آچکا ہے)۔ ایسا راہبر جو سیاستِ خاصہ، سیاستِ حامہ اور سیاستِ عامہ کے امتزاج کا حسین پیکر ہو۔ جس سے زبان سے کبھی کوئی سخت بات نہ نکلی ہو بلکہ وہ امن و سلامتی اور محبت و مروت کا پیکر ہو۔ جس کی جرات و بے باکی اس کی ایمان داری اور بے داغ ماضی کی نشاندہی کرے۔ جب ایسا راہبر میسر ہوگا تبھی ایسا طبقہ تشکیل پا سکے گا جو ماضی اور حال کا پر وقار حوالہ ٹھہرے۔ میری اس تھیوری کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس نوجوان طبقے کے پاس ایسی فکر ہو جو ماضی اور حال دونوں کا مرکب ہو۔ ۔ نہ وہ اتنا جدید ٹھہریں کہ بیگانے لگنے لگیں اور نہ وہ اتنا قدیم ٹھہریں کہ پرانے لگنے لگیں۔ وہ نوجوان Traditional rationalism کا ایسا حسین اور مکمل پیکر ہوں کہ وہ زمانے کی چلتی نبض کی ضرورت بن جائیں۔ آج کے دور میں ان بنیادی دو پیمانوں پہ پوری اترتی نوجوانوں کی اک ہی جماعت ہے جو مصطفٰیﷺ کے نام سے شروع ہوتی ہےمطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ۔ ۔ ۔ 1994 سے لے کر 2022 تک یہ تنظیم وقتِ تہجد اللہ کے حضور آہ و زاری کرتے ہوئے بھی ملی اور معاشرے کے ستم رسیدہ لوگوں کے لئے حکومتِ وقت سے احتجاج کرتی سڑکوں پہ بھی پائی گئی۔ دروسِ قرآ ن کے انعقاد سے لے کر کتاب اور صاحبِ کتاب سے محبت تک کی مجالس۔ ۔ ۔ آقاﷺ کے اسوۃ اور ان ﷺ کی محبت کو روحوں کا جام بنانے تک کا سفر۔ ۔ ۔ اسلامی نظام کا شعور بانٹنے کی جدوجہد۔ ۔ ۔ آگہانی آفات میں بے لوث جدوجہد۔ ۔ ۔ موجودہ دور میں یہ سب مصطفوہ سٹوڈنٹس موومنٹ کے ولاعہ کسی اور جماعت کا خاصہ نہیں۔ اسلامی معاشرے کے نوجوان کو آقاﷺکریم کی حیات سے کیا کیا ضابطے اور حیاتِ انسانی کے اصول ملتے ہیں وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے افراد، یعنی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہیں جس پر چل کر معاشرے میں چین و سکون کا غلبہ ہو اور پورا مسلم معاشرہ بلکہ پوری دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے؟آج کے دور میں ان ضابطوں اور اصولوں کی نمائندہ جماعت مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ہی جماعت اسلام کی پر امن ترجمانی کرتی ہے۔ یہی جماعت وہ بحرِ ذخار ہے جس سے معاشرے کی خشک و بنجر زمین کو سیراب کر کے کاشت کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ ہی خزاں رسیدہ چمن کے لئے غازہ بہار ہے اور مایوس نوجوانوں کے لئے آس و امید کی کرن ہے۔ 6 اکتوبر کو یہ نعمت سی طلبہ تنظیم 28 برس کی ہو جائے گی لیکن یہ جن مشکل راستوں اور افکار کو اپنے عمل اور جدوجہد سے آنے والی نسلوں کے لئے ہموار کر آئی ہے وہ آنے والی صدیوں تک قابلِ تقلید رہیں گے۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی فکر اور فلاسفہ ہی تکفلِ مستقبل ہے۔ اس جماعت کے تمام سابقین، موجودہ ذمہ داران، کارکنان کو سلام ہے اور 28ویں یومِ تاسیس پر مبارک باد ہے کہ آپ اک عظیم معاشرے کی تشکیل کے لئے اس معاشرے کی بنیادوں میں اپنی محنت شامل کر چکے ہیں۔

تبصرہ