فرد کی تربیت میں تعلیم کی اہمیت

ڈاکٹر فرخ سہیل

تعلیم عربی کا لفظ ہے جس کا مفہوم ہے جاننا، آگاہی اور کسی بات سے آگاہی اور واقفیت حاصل کرنا۔ اصطلاح میں علم سے مراد ہے کسی شے کی حقیقت کا ادراک حاصل کرنا۔ ایک ماہر تعلیم کے مطابق تعلیم کا لغوی مفہوم یت سکھانا، بتانا اور تربیت کرنا۔ تعلیم کی مختلف تعریفات درج ذیل ہیں:

i۔ امام غزالی کے مطابق: تعلیم معرفت حق اور حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہے جیسا کہ وہ احیائے علوم الدین میں لکھتے ہیں کہ

’’نبوت کے بعد اشرف و افضل کام لوگوں کو تعلیم دینا۔‘‘ ان کے نفوس کو مہلک عادتوں اور خصلتوں سے بچانا، عمدہ اخلاق اور سعادت کی راہ بتلانا ہے اور تعلیم سے بھی یہی مراد ہے۔‘‘

ii۔ ابن خلدون کے مطابق: ’’عمرانی زندگی کی بنیاد غوروفکر او غوروفکر کی بنیاد علم ہے۔ انسان فطری طور پر تعلیم کی طرف رغبت اور میلان رکھتا ہے اس لیے یہ اس کا فطری حق ہے۔

iii۔ شاہ ولی اللہ کے مطابق: علم وہ ذریعہ ہے جس سے غوروفکر کی عادت پختہ ہوتی اور ذہنی جمود ٹوٹتا ہے۔ علم انسان کو اس کے نفس کا عرفان عطا کرتا اور اندھی تقلید سے بچا کر عملی زندگی کے لیے اپنی راہ آپ تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور علم سے مسلمانوں میں اسلامی روح بیدار ہوتی ہے۔

iv۔ علامہ اقبال: علم کے متعلق لکھتے ہیں کہ علم سے میری مراد وہ علم ہے جن کا دارومدار حواس پر ہے۔ عام طور پر علم کا لفظ انہیں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے وہ طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے۔ اگر یہ دین کے تحت نہ رہے تو محض شیطنت ہے۔ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ علم کو مسلمان کرے لہذا مسلم نقطہ نظر کے مطابق تعلیم کا حصول ہر شخص کا نہ صرف بنیادی حق ہے بلکہ یہ اس کا مذہبی فریضہ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے مطابق زندگی صرف اس فانی دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ اصل اور لافانی آغاز تو مرنے کے بعد شروع ہوتا ہے چنانچہ فکر اسلامی کے مطابق فانی اور لافانی دونوں ہی تعلیم کے اصل ہدف ہیں۔ اس لیے قرآن حکیم اور نبی خاتم ﷺ نے بھی تعلیم کو انسان کی دنیوی اور دینی زندگی کا اصل مقصد قرار دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ.

(العلق، 96: 1)

’’اپنے رب کے نام سے پڑھ۔‘‘

اس کے علاوہ پروردگار نے فرمایا: کیا صاحب علم اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نبی رحمت کو پروردگار نے علم حاصل کرنے کی دعا سکھائی کہ وقل رب زدنی علما اور کہہ کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔

اس کے علاوہ نبی خاتم النبیین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

اطلبوا العلم من المهد الی اللحد.

’’کہ علم حاصل کرو جھولے سے لے کر اپنی لحد تک‘‘۔

اس کے علاوہ فرمایا کہ:

طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم و مسلمة.

’’کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘

اس احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر مسلمان پر علم کے حصول کو فرض قرار دیا چنانچہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلم و تعلیم ہر مسلمان پر لازم کیونکہ تعلیم فطرت انسانی کی تراش خراش اور تہذیب کے لیے ضروری ہے جس کی طرف قرآن میں بھی ہمیں راہنمائی دیتا ہے اور پروردگار نے مسلمانوں کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ اپنے فرض منصبی کو پہچان لیں کہ

هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.

(الصف، 61: 9)

’’یعنی اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘

اسی آیت کے پیش نظر مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے اس فرض منصبی کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی باطل سوچ، جہالت کو رکاوٹ نہ بنائیں بلکہ اپنے اس مقصد عظیم کے حصول کے لیے دن رات کوشش جاری رکھیں کیونکہ علم ہی انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کرتا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان نہ صرف اپنی ذات کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی کامیابی حاصل کس طرح کی جائے۔ جس کی بناء پر انسان اپنے کردارو عمل اور قول و فعل کو سنوار سکے۔ لہذا تعلیمی کامیابی کے حصول کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی اچھے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا جائے۔ جہاں معلم صرف کتابی علم پر ہی توجہ نہ دے بلکہ اس کا کردار بھی طلبہ کے لیے باعث تقلید ہو۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی مقصد کا تعین کرتے ہوئے حصول علم کے لیے سینہ سپر ہوجائے۔

تعلیم کے حصول میں اساتذہ کی کاوشوں کے ساتھ والدین کا ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ ماں کی گود تو بچے کی اولین درسگاہ قرار پائی ہے۔ اولاد کی تعلیمی کارکردگی میں والدین کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ لہذا اگر والدین بچے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کرتے رہیں تو وہ نہ صرف اپنی ذات میں بہترین انسان بنتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی بہترین اور قیمتی سرمایہ ثابت ہوتے ہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء

تبصرہ