مذہبی، روحانی اقدار تنزل کا شکار کیوں؟

سعدیہ کریم

اسلام امن و امان، انسانیت کے احترام اور معاشرتی عدل و انصاف کا دین ہے۔ اس کے ماننے والے حیوانات اور نباتات کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کا ہر ہر حرف اور لفظ انسانیت سے شفقت و محبت اور الفت کا آئینہ دار ہے۔ شرک کے بعد جو چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے وہ ظلم ہے۔ ظلم چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی، کسی فرد پر کیا جائے یا کسی جماعت پر، افعال کی شکل میں ہو یا اقوال کی شکل میں افکار و نظریات کی صورت میں ہو یا ان کے نفاذ و تطبیق کی صورت میں ہر نوعیت اور سطح کے ظلم کو اسلام ناپسندیدہ قرار دیتا ہے جبکہ امن و آشتی اور شفقت و محبت کو اسلام نے معاشرے کے لیے آب شفاء قرار دیا ہے۔

دین اسلام کا حلقہ افکار ایسا تنگ نہیں ہے جو انسانی فطرت کو ظلم کا خوگر اور عادی بنادے بلکہ اس کی وسعت و کشادگی اپنے ماننے والوں کو ناقہ شاید رحمت کا حدی خواں بناکر انہیں ترقی و سربلندی کی طرف مائل کرتی ہے لیکن موجودہ دور میں عالم اسلام نہایت ہی دلخراش اور کرب ناک منظر نامہ پیش کررہا ہے۔ اسلام کے ماننے والوں کی کم عقلی اور کوتاہ نظری نے انہیں زیاں کار اور سود فراموشی کا مریض بنادیا ہے۔ وہ فکر فروا سے غافل ہیں اور باہمی خون ریزی اور فتنہ و فساد کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ یہ ساری خرابی زاویہ نگاہ کی ہے۔ کبھی ہم خود حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کبھی حقائق ہمیں دھوکا دے جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روح سے عدم آشنائی اور ناواقفیت عدم برداشت کے رویوں کا سبب بن رہی ہے اور فکری بانجھ پن کا شکار لوگ اسلامی تعلیمات کی من مانی تشریحات سے نوجوانوں کو جنت کے خواب دکھا کر انہیں غیر معمولی جوش و خروش سے ظلم و دشمنی اور آگ و خون کی وادیوں کے مسافر بنا رہے ہیں۔ ہر طرف نفسا نفسی سرکشی اور پریشانیاں ہیں۔ اس بیابان کی اندھیری رات میں قندیل ربانی صرف قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں مذہبی اور روحانی اقدار تنزل کا شکار ہیں۔ اسلامی عقائد و اعمال محض فرسودہ رسم و رواج میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اسلام کی حتمی اور قطعی نتیجہ خیزی کا تعین کمزور پڑچکا ہے۔ معاشرے میں اسلامی و ایمانی حقائق اور روحانی اقدار کی بجائے مادیت پرستی عام ہوچکی ہے۔ دین معاشرتی اور سماجی زندگی سے کٹ چکا ہے۔ اسلامی وحدت کا شیرازہ، جغرافیائی، نسلی، لسانی، طبقاتی گروہی اور فرقہ وارانہ وفاداریوں کے باعث بکھر چکا ہے۔ اسلام کے مذہبی، سیاسی، معاشرتی، عمرانی، ثقافتی اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر جمود کا شکار ہیں۔ ہر طرف ظلم و بربریت، قتل و غارت گری اور جنسی سفاکیت کا بازار گرم ہے۔ مادیت پرستی نے مسلمانوں کے عقل و شعور کو جکڑا ہوا ہے۔ تمام ادارے کرپشن لوٹ مار اور مفاد پرستی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں سیرت طیبہ کا مطالعہ اور اس پر عمل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ امت مسلمہ جس بگاڑ اور انتشار کا شکار ہے اس کا حل سیرت طیبہ ﷺ کی اتباع اور پیروی میں مضمر ہے۔

سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں معاشرتی و سماجی مسائل کا حل:

حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا میں ملوکیت اور بادشاہی تھی۔ ملک عرب بہت سے خود مختار قبیلوں میں منقسم تھا۔ طاقت ور صرف دو سلطنتیں تھیں۔ روم اور فارس ان کا طاقتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوچکا تھا اور عالمی امن قائم نہیں رہ سکا تھا۔ آپ ﷺ نے 23 سال کی جدوجہد کے بعد ایک ایسا معاشرہ قائم کرکے دکھایا جو قیامت تک قابل تقلید رہے گا۔ آپ ﷺ نے پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے ایک ورلڈ آرڈر جاری کردیا جس کا باضابطہ اعلان خطبہ حجۃ الوداع میں کیا گیا۔

انسانی حقوق کا پہلا چارٹر:

حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو عالم انسانیت کے لیے پہلا باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر اور نیا عالمی مقام تھا آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ اور دیکھ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کو جس حالت پر پیدا فرمایا تھا زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرنے کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہے۔‘‘

گویا آپ ﷺ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ نظام عالم کا ایک دور ختم ہوچکا ہے اور دوسرے کا آغاز ہونے جارہا ہے اور میں دنیائے انسانیت کو اس دور کے آغاز پر ایک نیا عالمی نظام دے رہا ہوں۔

نئے عالمی نظام کے اصول و ضوابط:

آپ ﷺ نے امن و امان کے نفاذ اور معاشرتی زندگی میں اعتماد کو بحال کرنے کے لیے جو نیا عالمی نظام متعارف کروایا اس کے چند چند درخشاں پہلو درج ذیل ہیں:

1۔ سابقہ جاہلانہ اور ظالمانہ نظام کی منسوخی:

آپ ﷺ نے فرمایا: دور جاہلیت کا سارا ظالمانہ استحصالی نظام میں نے اپنے پائوں تلے روند ڈالا ہے۔ آج سے زمانہ جاہلیت کے سارے خون (دیت و قصاص) کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور تمام سودی لین دین بھی ختم کیے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ کے ان اعلانات سے واضح ہورہا ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع ہی فی الحقیقت نیو ورلڈ آرڈر یا نیا عالمی نظام ہے۔ اس نظام کے نفاذ سے ہی معاشرے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

2۔ عالمی امن کا قیام:

اس نئے نظام کا سب سے پہلا اور اہم پہلو عالمی سطح پر قیام امن تھا۔ اقوام، ممالک اور قبائل ہمہ وقت قتل و غارت گری اور جنگ و جدال میں مصروف رہتے تھے لامتناہی جنگوں کے سلسلے تھے جو پشت در پشت چلے آرہے تھے۔ انسانی خون بہت سستا ہوچکا تھا۔ معمولی باتوں پر نسلوں کی نسلیں ذبح کردی جاتی تھیں ان خوف ناک حالات میں آپ ﷺ نے اعلان فرمایا:

’’اے بنی نوع انسان! بے شک تمہاری جانیں اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں قیامت تک ایک دوسرے پر حرام کردی گئی ہیں جس طرح آج کا دن، آج کا مہینہ اور شہر حرمت والے ہیں۔ اسی طرح تم سب کے جان و مال بھی ایک دوسرے کے لیے حرمت والے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’خبردار! میرے بعد پلٹ کر دوبارہ گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔‘‘

آپ کے اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے معاشرتی امن و امان کو قائم کرنے کے لیے جو اصول و ضوابط دیئے جو قیامت تک قابل عمل ہیں ان کو اپناکر ہی معاشرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

3۔ عالمی انسانی مساوات کا قیام:

رسول اکرم ﷺ نے انسانی طبقوں، نسلوں اور معاشروں کی ایک دوسرے پر مصنوعی فضیلت و برتری کے سب دعووں کو ختم کردیا اور انسانی مساوات کا عالمی اعلان فرماتے ہوئے باہمی فضیلت کا عادلانہ اصول بھی عطا فرمادیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’تمام بنی نوع انسان، آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے جھوٹے دعوے، جان اور مال کے سارے مطالبے اور جاہلیت کے سارے انتقام میرے پائوں تلے روندے جاچکے ہیں۔ اے لوگو! سب کا رب ایک ہے اور باپ بھی ایک ہے مگر تم سب میں بزرگ و برتر وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ پس کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے۔ ساری برتریاں کردار اور عمل پر مبنی ہیں۔‘‘

مساوات انسانی کے اس اصول پر آپ ﷺ نے بین الاقوامی سطح پر جمہوری اور عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ آج ہمیں اپنے معاشرے میں بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اس نبوی ﷺ اصول کو اپنانا ہوگا۔

4۔ معاشی و اقتصادی استحصال کا خاتمہ:

معاشرے کے مجموعی امن کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر معاشی اور اقتصادی استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے اس استحصالی خاتمہ کے لیے بھی قانون عطا فرمادیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بے شک آج سے ہر قسم کا سود اور سارا سودی نظام منسوخ کیا جاتا ہے۔ تم راس المال کے سوا نہ کچھ لے سکتے ہو اور نہ کچھ دے سکتے ہو تم سودی لین دین کی شکل میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو ورنہ قیامت کے دن تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘

اگر اس اصول کو تمام اسلامی مملکتوں میں نافذ کردیا جائے تو معاشرے میں معاشی اور اقتصادی استحصال مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔ نتیجتاً اس سے پیدا ہونے والے بگاڑ کا علاج ممکن ہے۔

5۔ عورتوں کے بنیادی حقوق:

معاشرے میں امن و امان کے بگاڑ کی ایک اہم اور بنیادی وجہ عورتوں کے بنیادی حقوق کی عدم فراہمی بھی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے تاریخی خطبہ میں سابقہ عالمی نظام میں خواتین پر روا رکھے گئے تمام مظالم کے خاتمے کا اعلان فرمادیا اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر دی۔

زیر دست اور افلاس زدہ انسانیت کے حقوق کا تحفظ:

غرب، بھوک اور افلاس معاشرے کا وہ ناسور ہے جو معاشرے کے امن و امان کی مجموعی صورتحال کا بگاڑ کردیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے عالمی سطح پر عادلانہ اور غیر استحصالی انسانی معاشرہ قائم کرنے کے لیے یہ عطا فرمایا کہ غلاموں اور ملازموں کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔

خلاصہ کلام:

انسان کے معاشرتی، معاشی، مسائل، اخلاقی، سیاسی اور مذہبی مسائل کا حل سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی معاشروں میں سیرت طیبہ کی اتباع کو لازمی قرار دیا جائے۔ آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں انسانیت کے تمام مسائل کا حل عطا فرما دیا اور ایسا مکمل سماجی اور سیاسی نظام عطا فرمایا کہ جو قیامت تک آنے والے تمام معاشروں کے لیے امن و امان کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ آج بھی اگر اس نظام کو رائج کردیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے کیونکہ اس نظام میں اخوت، مساوات ، عدل اور انصاف پر مبنی ہے ان اصول و ضوابط کے نفاذ سے ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں خیر، تعمیر و ارتقاء اور عدل کا دور دورہ ہوگا۔

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء

تبصرہ