تعلیم سب کے لئے۔۔۔ مگر یہ آواز اٹھائی کس نے؟ از اقرا یوسف جامی

تحریر: اقراء یوسف جامی

جس قوم کے دین کی ابتداء ’اقراء‘ سے ہوئی ہو اسے تعلیم کی اہمیت بتانا عجیب لگتا ہے، پھر یہ قوم اسلام کا قلعہ کہلانے والی اور لاالہ الااللہ کے نعرے پر بننے والی ریاست میں آباد ہو۔ یہ امتیاز بھی ہماری ریاست کے سرکاری مذہب کو ہی حاصل ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کو برابر نہیں جانتا اور ریاست کا آئین تعلیم کا حق ہر شہری کو دیتا ہے۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25Aمیں درج ہے

"The state shall provide free and compulsory education to all children of the age of five to sixteen years in such manners as may be determind by law"

سرکاری مذہب و ریاست کے آئین کے حکم کی تعمیل کہاں تک ہے اس بات کا اندازہ مختلف ریسرچز سے لگایا جا سکتا ہے۔

  1. شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں 160 ویں نمبر پر اور اسلامی ممالک میں 54 ویں نمبر پر ہے۔
  2. 2. یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول نہیں جاتے۔
  3. ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ، یونیسکو کی رپورٹ کو مزید چار چاند لگاتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ پاکستان میں گھوسٹ سکولز کی تعداد 11، 480 ہے۔
  4. ’اقراء ‘سے شروع ہونے والا دین اور اس دین کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی ریاست میں Top Ten کرپٹ اداروں میں محکمہ تعلیم بھی شامل ہے۔

ریاست کا آئین مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے، مگر عملی طور پر یونیورسٹی سطح پر تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ نرسری میں داخل ہونے والے ہر ہزار طالبعلموں میں سے صرف سات طالبعلم یونیورسٹی پہنچ پاتے ہیں اور وہ بھی کس مشکل میں تعلیم جاری رکھتے ہیں یہ رب کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جس تعلیم نے ریاست پاکستان کے شہری کو مہذب، تمیزدار، فرض شناس اور حقوق سے آشنا کرنا تھا وہ تعلیم تو ہر عام شہری کی پہنچ سے بہت دور ہوگئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس ریاست کے حکمرانوں نے اس قوم کو تعلیم سے ہی نہیں بلکہ شعور و حکمت سے بھی بہت دور لا کر کھڑا کردیا ہے۔ ان حالات میں اس بھولی عوام نے نہ صرف شعور کھویا بلکہ اپنی رائے بھی کھو بیٹھی اب یہ لوگ بار بار انہی چور، لٹیروں، غنڈوں اور کرپٹ عناصر کو اقتدار کی گدی سونپتے جاتے ہیں جن کی وجہ سے آج یہ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان بھوکے، ننگے اور مفلس حال لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد حکمران فخر سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور جس عوام نے ان نمائندوں کو چنا تھا وہ ہمیشہ خوار ہوتی ہے اور اس خواری کو اپنا مقدر سمجھ کر ہر ظلم چپ چاپ سہتی ہے۔

حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ لوٹ مار، بدعنوانی و بد اخلاقی ہو یا معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم و غلط روشیں، اداروں کا کمزور ہونا ہو یا اداروں پر مسلط اشخاص کا بدعنوان ہونا۔ ۔ ۔ معاشرے کی ہر برائی کی بنیاد لاعلمی و جہالت ہے اور اس کا واحد حل فروغِ تعلیم ہے۔ یہ لاکھوں کروڑوں کی بات ہر سیاسی پارٹی جانتی ہے اور الیکشن کے ہر دور میں اس کا راگ الاپتی ہے اور عوام کو تعلیم کے نام پر بےوقوف بناتے ہیں۔ اب وقت کی ضرورت تھی کہ کوئی زبانی، کلامی باتوں سے بہت آگے جا کر کچھ عمل کرتا۔ وقت کی اس ضرورت کو اشد جانتے ہوئے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ نے ملک گیر تعلیمی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کے نکات اور ٹائمنگ دونوں ہی مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے قائدین کے شعور، حکمت اور دانشمندی کا ثبوت ہیں۔ ان زیرک طلبہ نے اس مسئلہ کی جڑ کو جاننے کے بعد سب سے پہلے اس مرض کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں تعلیم کا حصہ 4فیصد تک مختص کیا جائے اور آئندہ سالوں میں بڑھاتے ہوئے اسے Maximum possibble range تک لایا جائے۔

اتنا اہم اور قابل عمل مطالبہ اور وہ بھی سال کے بجٹ کے اعلان سے پہلے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کی بصیرت کا عمدہ ثبو ت ہے۔ اس تعلیمی مہم کے مزید مطالبات کا حصہ یہ چند نکات بھی ہیں۔

  • تعلیمی ماہرین پر مشتمل خود مختار اعلی اختیاراتی کمیشن بنایا جائے جو کہ آیئن پاکستان کے مقاصد کے مطابق جامع نظام بنایا جائے اور یہ کمیشن دس سالہ تعلیمی پالیسی بنانے کا پابند ہو۔
  • پرائمری، سیکنڈیری، ہائر سیکنڈیری کالجز، جامعات، کے اساتذہ کے لیے معیار ترتیب اور مراعات کا نظام موثر اور شایانِ شان بنایا جائے ٹیچر ٹریننگ جدید تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
  • ہر سطح کی مذہبی علاقائی، لسانی، طبقاتی، اور فرقہ وارانہ تعصبات کو تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں سے خارج کیا جائے۔
  • تعلیمی اداروں کے اندر ہونے والی کرپشن کی روک تھام کیلیئے نیب کا خصوصی سیل قائم کیا جائے جبکہ دہشت گردی کے پیش نظر اداروں کو سیف زون میں بدلا جائے۔

یہ نکات ہر باشعور پاکستانی کے دلی خواہش کے ترجمان بھی ہیں اور اس سنگین صورتِ حال کے متقاضی بھی۔ تعلیم سب کے لیے کا نعرہ تو ہر سیاسی پارٹی کا نعرہ لگایاتایخ میں پہلی مرتبہ کسی سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اپنے فیڈریشن نے اپنے اغواء شدہ حقوق کے لیے آواز اٹھا کر ثابت کیا کہ شعور رمز باقی ہے۔ اب یہ مجھ سمیت ہر ہر طالبِ علم کا فرض ہے چاہے وہ کسی مذہب، فرقے، مسلک اور کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو ’’ تعلیم سب کے لیے ‘‘کی ہم میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے شریک ہوں بلکہ اس ہم میں انجان طالبعلموں کو بھی شامل کریں اور اس کے ذریعے نہ صرف خود کو بلکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کی وجہ بنیں۔

تبصرہ